Here is a sampling of some of the best rain quotes and rainy weather quotes.
“It’s the rain that fills the rivers, not the dew.”
وہ خوب قہقہے بچپن کی بارشوں کے یار
اور اب تو آئی کے برسات گذر جاتی ہے
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
میں کہ کاغذ کی ایک کشتی ہوں
پہلی بارش ہی آخری ہے مجھے
ہم سے پوچھو مزاج بارش کا
ہم جو کچے مکان والے ہیں
ساتھ بارش میں لیے پھرتے ہو اس کو انجمؔ
تم نے اس شہر میں کیا آگ لگانی ہے کوئی
کیا روگ دے گئی ہے یہ نئے موسم کی بارش
مجھے یاد آرہے ہیں مجھے بھول جانے والے
تمام رات نہایا تھا شہر بارش میں
وہ رنگ اتر ہی گئے جو اترنے والے تھے
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھ
ان بارشوں سے کہہ دو کہیں اور جا کر برسیں
اس دل کے اب نگر میں تیرا آستاں نہیں ہے
چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں
گرد ء دوراں کو دھونے کے لئے
بارش بھی بہت ضروری ہے عنبر
موسم کی ادا آج بھی پر کیف ہے لیکن
اک گزری ہوئی برسات کی حسرت نہیں جاتی
جہاں ہم نے محبت کے حسیں خوابوں کو پایا تھا
کبھی تو آ ملو ہم سے انہی جھرنوں کی بارش میں
کبھی ہم تم ملے تھے مہرباں لمحوں کی بارش میں
مگر اب بھیگتے ہیں ہم انہی یادوں کی بارش میں
بادلوں کی گھن گرج کو سن کے بچے کی طرح
چونک چونک اٹھتی ہے رہ رہ کر فضا برسات کی
راستے میں تم اگر بھیگے تو خفگی مجھ پہ کیوں
میرے منصف پہ خطا میری ہے یا برسات کی
اس نے بارش میں بھی کھڑکی کھول کے دیکھا
نہیں بھیگنے والوں کو کل کیا کیا پریشانی ہوئی
اداس رہتا ہے محلے میں بارش کا پانی آج کل سنا
ہےکاغذ کی کشتی بنانے والے بڑے ہوگئے
سنا ھے پیار کی بارش برسنے والی ھے۔
سنا ھے عشق کا ساون ابھی آتے آیا ھے۔
نشہ چائے کا بوندیں بارش کی
مہینہ جولائی کا اور یاد صرف اس کی
کرو سامان جھولے کا کہ اب برسات آئی ہے
گھٹا امڈی ہے بجلی نے چمک اپنی دکھائی ہے
میں نے دیوار پہ کیا لکھ دیا خود کو اک دن
بارشیں ہونے لگی مجھ کو مٹانے کے لئے
برسی ہے برسات جو دل کے گاؤں میں
بجنے لگے ہیں پھر سے گھنگرو پاؤں میں
ایک سمندر آنکھ سے کیا بہہ نکلا ہے
طغیانی سی دیکھی ہے دریاؤں میں
فراقِ يار كى بارش ملال كا موسم
ہمارے شہر ميں اترا كمال كا موسم
بہت دنوں سے ميرے ذہن کے دريچوں ميں
ٹهہر گيا ہے تمہارے خيال كا موسم
دھوم مچاتی رہتی ہے بارش کچھ کچھ کہتی ہے
گیت سناتی رہتی ہے بارش کچھ کچھ کہتی ہے
سندر خواب دکھاتی ہے جب بھی چھت پر جاتی
مانگ سجاتی رہتی ہے بارش کچھ کچھ کہتی ہے
سر برہنہ بھری برسات میں گھر سے نکلے
ہم بھی کس گردش حالات میں گھر سے نکلے
دن میں کس کس کو بتائیں گے مسافت کا سبب
بس یہی سوچ کے ہم رات میں گھر سے نکلے
گھٹا دیکھ کر خوش ہوئیں لڑکیاں
چھتوں پر کھلے پھول برسات کے
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
برسات کا مزا ترے گیسو دکھا گئے
عکس آسمان پر جو پڑا ابر چھا گئے
آئے کبھی تو سیکڑوں باتیں سنا گئے
قربان ایسے آنے کے کیا آئے کیا گئے
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو
بھلے چھین لو مجھ سے سے میری جوانی
مگر مجھ کو لوٹا دو وہ بچپن کا ساون
وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانی
کچھ اس طرح کھلا آرزو کا رنگ
بارش میں یاد کا پیرھن بھیگنے لگا
ملے تھے بارش میں جہاں تم پہلی بار
خاص وہیں پر مون سون کا ٹھکانہ ہوا ہے
سنا ہے بہت بارش ہوئ ہے تیرے شہر میں مگر بھیگنا مت اگر دھل گئ ساری غلط فہمی تو بہت یاد آئیں گے ہم
کاغذ کی اک کشتی لے کر بارش میں کیوں نکلے ہوبھولے بسرے بچپن کی یادوں کے پیکر بھیگیں گے
دھوپ کا اک ٹکڑا کیوں میرے سر پر سایہ کرتا ہے
کیا مجھ کو منظر سے ہٹا کر سارے منظر بھیگیں گے
اچھا میں ہارا تم جیتے آگے کی اک بات سنو
اب کے برس جب بارش ہوگی سوچ سمجھ کر بھیگیں گے
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
دفتر سے مل نہیں رہی چھٹی وگرنہ میں
بارش کی ایک بوند نہ بیکار جانے دوں
پیار کی بارش برسے گی رم جھم
بوندوں کے تیور سے پتہ چل گیا ھے
یہ بارش بھی کمال کرتی ہےعمیر
یاد دلا کر پھر سب بھلا دیتی ہے
ہو لینے دو بارش ہم بھی رو لیں گے
دل میں ہیں کچھ زخم پرانے دھو لیں گے
برس رہی تھی بارش باہر
اور وہ بھیگ رہا تھا مجھ میں
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو
یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے
ہمارے شہر آجاؤ صدا برسات رہتی ہے
کبھی بادل برستے ہیں کبھی آنکھیں برستی ہیں
میں چپ کراتا ہوں ہر شب امڈتی بارش کو
مگر یہ روز گئی بات چھیڑ دیتی ہے
حیرت سے تکتا ہے صحرا بارش کے نذرانے کو
کتنی دور سے آئی ہے یہ ریت سے ہاتھ ملانے کو
پیاسو رہو نہ دشت میں بارش کے منتظر
مارو زمیں پہ پاؤں کہ پانی نکل پڑے
چھپ جائیں کہیں آ کہ بہت تیز ہے بارش
یہ میرے ترے جسم تو مٹی کے بنے ہیں
آنے والی برکھا دیکھیں کیا دکھلائے آنکھوں کو
یہ برکھا برساتے دن تو بن پریتم بیکار گئے
اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
اب کے بارش میں تو یہ کار زیاں ہونا ہی تھا
اپنی کچی بستیوں کو بے نشاں ہونا ہی تھا
موسم موسم آنکھوں کو ایک سپنا یاد رہا
صدیاں جس میں گزر گئیں وہ لمحہ یاد رہا
قوس و قزح کے رنگ تھے ساتوں چہرے پر
ساری محفل بھول گئی وہ چہرا یاد رہا
تھا وقت کہ انتظار کرتا تھا یہ اس سوہانے موسم کااب ٹوٹ جاتا ہوں یا توڑ دیتا ہے کچھ تو خیال کرورق ورق رُولاتا ہے مجھے میرے لکھے افسانے کا نفیس لوٹ آو ناکسی شب یا میرے مرنے کی تم دعا کرو
TAGS: WhatsApp Status•سوشل میڈیا•واٹس ایپ •
Leave a Comment