Friendship poetry in Urdu has a rich tradition of celebrating the virtues of friendship. poets have used their words to depict the deep bond of companionship and its importance in human life.
یوں محفل نہیں ہوتی اور نظارے نہیں ہوتے
یوں چاند كے پہلو میں ستارے نہیں ہوتے
ہَم اِس لیے کرتے ہیں آپ کی فکر
کیونکہ دِل كے قریب سارے نہیں ہوتے
اے دوست تو نے دوستی کا حق ادا کیا
اپنی خوشی لوٹا کے میرا غم گھٹا دیا
کہنے کو تو اپنے ہیں جہاں میں بہت مگر
اپنوں نے مجھ کو در سے دربدر کرا دیا
لڑتا رہا دنیا سے اپنوں کے لیے میں
اپنوں نے تو وفا کا مجھے یہ صلہ دیا
بڑے عرصہ دراز کے بعد غم ہوا تھا کم
ہنسنا ابھی سیکھا تھا کہ پھر سے رولا دیا
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سےیاد آ رہا ہے
وہ جانتا ہی نہیں ہے کہ دوستی کیا ہے
گزر گئی ہے جو مشکل سے زندگی کیا ہے
ملے گا ہجر جدائی میں کٹے جب دن
تبھی ہی ہوگا یہ معلوم تشنگی کیا ہے
نہیں ملے گی جو روٹی رہیں گے جب بھوکے
بتا غریب ہی سکتا ہے بے بسی کیا ہے
اگر وعدہ کیا ہے زندگی بھر ساتھ چلنے کا
تو موقع ڈھونڈ لو دنیا کی جھنجٹ سے نکلنے کا
سنا ہے بارشوں میں چاہتوں کے پھول کھلتے ہیں
یہی موسم ہے دل میں دوستو ارماں مچلنے کا
تمہیں ہے ناز نظروں پر ،ہمیں بھی ناز ہے دل پر
راہِ دنیا میں دونوں کو ہی مل جل کر ہے چلنے کا
یہ روح و جسم کا رشتہ تو اک دن ٹوٹ جائے گا
اگر چاہو تو اب بھی وقت ہے رستہ بدلنے کا
مراسم ہیں نہ پہلے سے نہ پہلی سی محبت ہے
تو پھر کیا خاک آۓ گا مزا آتش میں جلنے کا
اشارہ آپ کی آنکھوں کا مبہم تھا ،سمجھتے کیا
وضاحت کچھ نہ تھی اور نہ ہی موقع تھا سنبھلنے کا
ہزاروں کوششیں کی ہیں مگر افسوس اے دوست
ہنر آیا نہ ہم کو وقت کے سانچے میں ڈھلنے کا
بیقراری میں بسر رات نہیں کر سکتی
آج ہفتہ ہے صنم! بات نہیں کر سکتی
آپ کے دم سے ہے دنیا میں میرا دار و مَدار
آپ کے ساتھ کبھی ہاتھ نہیں کر سکتی
خلقت ِدُنیا کا اظہارِتعلق بھی خوب سا ہے
بیٹھتے ہی چاہت میں” چائے” کا پوچھتی ہے
نہ تم الزام دو مجھ کو
نہ میں الزام دوں تم کو
وفا اور بےوفائی میں جو اک باریک سا پردہ ہے
اُس کو اٹھائیں کیوں؟
جہاں تک آچکے ہیں ہم
اب آگے بڑھ نا جائیں کیوں؟
آدم تیری زندگی بھی گلاب کی طرح ہے
ایک دن تو نے بھی گلاب کی طرح مر جھا جانا ہے
صورت نے تو ڈھلنا ہی ہوتا ہے سورج کی طرح
سیرت کی فکر کر جو مرنے کے بعد بھی کرادر کے نام پر زندہ رہتی ہے
کسک دل کی دل میں چھبی رہ جائے گی
تری زندگی میں میری کمی رہ جائے گی
تم نے نہ رُوکا تو میں چلا جاؤں گا
بے بسی دور تلک دیکھتی رہ جائے گی
دوستی میں بھی پیسوں کی بات کرتا ہے
دیکھو میرا یار بھی کاروبار کرتا ہے
جو بھی چاہا اس نے اب تک اس کی اپنی مرضی ہے
پیار چاہت ہے تماشا اس کا سب کچھ فرضی ہے
یہ نشانی تم کو دی ہے جب بھی تنہا ہونا
یاد تیری میں یہ دنیا خوشبو سے اب بھر دی ہے
کسک دل کی دل میں چھبی رہ جائے گی
تری زندگی میں میری کمی رہ جائے گی
تم نے نہ رُوکا تو میں چلا جاؤں گا
بے بسی دور تلک دیکھتی رہ جائے گی
جو دُنیا میرے اندر ہے ! کسی کو کیا غرض
وہ آئے مطلب نکالا ! نکل گئے ! جانم
کچھ اس طرح سےتیری پیاس کوبجھاؤں گا
میں بجھتی آگ کو سینے میں پھر لگاؤں گا
لہو بھی دونگا،جگر اور دل بھی دے دوں گا
میں روٹھے یار کو کچھ اس طرح مناؤں گا
گُل اَفشانیِ گفتار نے تمہاری ! روک رکھا تھا سب کو
تم ہی چُپ ہوئے ! پھر محفل برخاست ہونے پر گِلا کیسا
جو بھی چاہا اس نے اب تک اس کی اپنی مرضی ہے
پیار چاہت ہے تماشا اس کا سب کچھ فرضی ہے
یہ نشانی تم کو دی ہے جب بھی تنہا ہونا تم
یاد تیری میں یہ دنیا خوشبو سے اب بھر دی ہے
اک کہانی ہے عجب سی جو سنائی تھی کبھی
جس میں نفرت انتہا کی اس نے مجھ سے کردی ہے
کیوں یہ کرنیں تیرے چہرے کا ہی بوسا لیتی ہیں
کام کیسا ہے یہ ان کا کیسی یہ سر گرمی ہے
اشک بن کر خون دل کا دیکھو کب تک گرتا ہے
ایسی حالت دیکھ کر جو اس نے اپنی کرلی ہے
آئیں اس شہر کی سرد حسین شاموں میں بیٹھ کر بات کرتے ہیں
ایک ایک گرم چائے کا کپ پیتے ہیں یادیں تمام کرتے ہیں
نہیں رکیں گےیہ آنسوکسی بھی آنکھ سے اب
تیری کہانی کو کچھ اس طرح سناؤں گا
نہیں کرے گا کوئی اب فریب اور دھوکہ
کچھ اس طرح سےفریبی کا خوں بہاؤں گا
یہ جو میرے عروج پر ! پنجہ آزمائی کر رہے ہیں
اِن میں غیروں کے ساتھ ! رازداں اپنے بھی ہیں
دم کر مجھے ایسا طلحہ کہ میرے بھاگ سنور جائیں
تجھ سے کنارہ گر ہم کریں،تیری قسم کہ ہم مر جائیں
مفلسی ہے بے روزگاری یہاں
درد رہتا ہے یہ غریبوں میں
درد دل نے عجب ہے وار کیا
لہر پھیلی ہے اب طبیبوں میں
آج مطلب کی دوستی ہے میاں
آج کچھ بھی نہیں حبیبوں میں
خوشی بانٹی ہے سب رقیبوں میں
کیا محبت ہے اب ادیبوں میں
آج بوتے ہیں بیج الفت کا
مل ہی جائے گاپھل نصیبوں کا
میں سنبھلنے تو لگا تو نےمگر دوست میرے
بھرتے زخموں پہ میرے روز نئے وار کئے
میں عجب شان سے اس شہر میں آیا پارس
راستے مل کہ سبھی نےمیرے پر خار کئے
خونِ دل دے کہ نئے راستے ہموار کئے
عاشقوں نے ہی سر اپنے سرِ تلوار کئے
جو پوشیدہ تھے میرے راز تیرے پاس
جانے کیا سوچ کہ تو نے سرِ اخبار کئے
ہے یہی میری دعا مجھ سے کبھی ہوں آشنا
زندگی کے راز جو دل میں تھے تیرے دلربا
وہ بنا دیتے ہیں سونا پاس جائیں گر کبھی
روح اپنی جسم اپنا دنیا میں اہل صفا
انجمن تھی تم سے قائم تُو گیا سب کچھ گیا
آشیاں ویران کرکے اب یہی ہوں سوچتا
تجھ سے قائم دل کا رشتہ روح کا اور ذات کا
ذوق مستی شوق تُو ہے منزل باخدا
شام ہونے کو ہے آئی کام باقی ہے ابھی
کیسے جاؤں گھر کو اپنے چھوڑ کر تو ہی بتا؟
ہم چھوڑ کر جارہے ہیں
تعلق ِسخن توڑ کر جارہے ہیں
اب تو دِل نہیں کرتا منانے کا
نہ جانے کس غم زدہ موڑ پر جارہے ہیں
بیوفا سے دل لگا کر بیٹھ گئے
جھوٹی دنیا بسا کر بیٹھ گئے
دل دیا اسکو مگر سستے میں
یعنی آپ سب لٹا کر بیٹھ گئے
کوئی امید بر نہیں آنی
پیار کی کشتی جلا کر بیٹھ گئے
عشق کا انجام ہم جانے بغیر
دل کو دیوانہ بنا کر بیٹھ گئے
کیا خبر تھی ہم سے بھی روٹھ جائیں گے لوگ
مناتے مناتے! ہم بھی ویسے ہی ہو گئے
جھوٹی ہنسی مسکرانا جھوٹا
یار تیرا ہر اک بہانا جھوٹا
کیسے اعتبار کروں پھر تجھ پر
دوستی جھوٹی تیری یارانا جھوٹا
تجھ کو کیا فرق کوئی جیئے یا مرے
تیرا فکر فاقہ یعنی بے معنی جھوٹا
تجھ کو کیا تعلق غم تنہائی سے
تیرا پل پل افسردہ بتانا جھوٹا
ہماری بربادی کا رنج اور تو کرے
جھوٹے اشک تیرے ماتم منانا جھوٹا
ٹوٹ کر میں ہی اُٹھا محفل سے
باز گشت میرے ہی رویے کی تھی
کیوں ہمیں در سے اپنے وہ دھکار بیٹھا
ہم تو شامل تھے اسد اسکے وفا داروں میں
کیوں ہمیں نکالا دیا اس نے دل سے اپنے
کیا ہم شمار نہ تھے اس کے پیاروں میں
آپ کا مخلص کہہ کے وہ ملا مجھ سے
پھر ایسی لکیر کھینچی مخلصوں سے دُور ہو گئے
کیوں وہ توڑنا چاھتا ھے مراسم ہم سے الفت کے
کیا وہ ہم سے خوش نہیں کہ شمار کرتا پیاروں میں
کیوں وہ ہمیں چھوڑ کر چلے جانا چاھتا ھے جانم
کیا ہم لائق نہیں کہ شامل رہیں اسکے وفاداروں میں
دغا دے گئی اس دفعہ بھی دوست کی دوستی
بھروسے کی مار پڑی یا میں ہی نادان ہوں
ملتے ہیں دوست قسمت سے زمانے میں
ہر اک ھوتا نہیں قابل اعتبار زمانے میں
خلوص کے رشتوں کو جو نبھاتے ہیں اخلاص سے
پاتے ہیں وہی خوشیاں جہاں بھر کی زمانے میں
TAGS: Poetry•اردو شاعری
Leave a Comment