Heart Touching Mother Poetry In Urdu

This poetry contains the glory of the mother. We have made this collection of mother poetry for you in the love of a mother. you can share this poetry with others.

ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے

اے زمانے! مجھے دھوپ کا خوف کیوں
ہے گھنی چھاؤں کا آشیاں میری ماں
ماں نہ ہوتی تو دنیا میں کچھ بھی نہیں
سچ ہے جاناں کہ میرا جہاں میری ماں

رہتی ہے ماں کی محبت دنیا میں بےمثال
بے آس بن کر اہل وعیال کا کرتی ہے خیال
کہلائے عظیم الشان تحفہ مالک الملک کا
پاکیزہ آنچل بھی لگتا ہے نہایت پر جمال
چڑھتا ہے پروان پہلا مدرسہ آغوش میں
بانصیب ہو تو پھر ملے درجہ بدرجہ کمال

اے ماں تیرے بنا سوُنا ھے یہ جہاں
توُ نہیں تو ہر سوغموں کی ہیں اندھیریاں
خدا نے کہا موسیؑ سے بن ماں دھیان کرنا زرا
نبی جی کا فرمان کہ باپ سے ذیادہ تیراحق ہے ماں
کہا جوھر نے، بن ماں کے گھر لگتا ہے قبرستان
میں کہتا ھوں، گھر کیا سارا جہاں لگتا ہے بے نماں
تیری گود سے، مدرسے سے، کالج سے بڑھی میری توانایاں
ہر سو، ہردم، میری ہی بہتری کے لیے رہی تیری قربانیاں

مانند شجر کےھم پہ تیرا سایہ رہا اور سہتی رھی تکلیفوں کو
کہ ہر پل، ہر کڑی دھوپ میں ھمارے لیے رہی تو سائباں

تیرا گلاب چہرا، جس میں پوشیدہ میری خوشیاں
ہر دم چمکتا تھا میرے لیے اے میری پیاری ماں
ساری رونقیں تیرے ہی دم سے تھیں اے ماں
تو جب رخصت ہوئی، تو رخصت ہوئیں سب خوشیاں

خدا نے بہشت بنا کے رکھ دی تیرے قدموں تلے
تو ہے جنت میری، تیرے پاوں تلے جنت ہے ماں
یاد کرتا ہوں تجھے ہر دم، اور روتا رہتا ھوں
نظام قدرت ہے موت بھی، کہ تو ملے گی اب کہاں
میرے اعمال میں تو کچھ بھی نہیں ہیں نیکیاں
تیری دعا سے امید ہے خدا کامیاب کریگا ہر امتحاں

الفاظ نہیں ملتے کہ بیاں کروں تیری خوبیاں
کوئ تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں، تجھ سا نہیں اے ماں

ہم اپنی محبت کا اظہار نہیں کرتے
ان کو مسکرا کر دیکھ کر عبادت کر لیتے ہیں
مگر ان سے پیار بھری باتیں نہیں کرتے
یوں تو دل کے ہر گوشے میں وہ ہی بسی ہیں ہمارے
مگر رات کو جب تک ان کا ہاتھ نہ تھام لیں خوابوں سے ملاقات نہیں کرتے
میرے سکوں کا ہر پل میری ماں سے جڑا ہے
میں آج جو کچھ بھی ہوں میری ماں کی دعا ہے
یوں تو دنیا نے متعین کیاہے ماں کے لیےبھی ایک دن
پرہم اپنی ماں کے بغیر زندگی کا کوئی لمحہ جیانہیں کرتے

ماں کے لیے میرے جذبات صرف
ایک دن کے لیے عیاں ہوا نہیں کرتے
اپنی زندگی کا ہر پل لکھ دیاہے میں نے اپنی ماں کے نام
ہم اپنی ماں کے بغیر زندگی کا تصور کیانہیں کرتے

احساسِ درد سے کر دیتا ہے آزاد
ماں کا لمس آبِ شفا ہو جیسے

ہجرت نے یوں کیا ہے مجھے میری ماں سے دور
یوں لگ رہا ہے جیسے ہوں میں جسم و جاں سے دور
روح و بدن کا رشتہ مکین و مکاں کا ہے
مطلب ہے موت کا کہ مکیں ہے مکاں سے دور

ماں اپنے بچوں کو زور آور بناتی ہے
جو ٹھان لے اُسے کر کے دِکھاتی ہے
ماں جیسی قُربانی کوئی دے نہیں سکتا
بچوں کی جیت کے لیئے خُود کو ہراتی ہے

بانہیں چھڑا کے جب وہ گیا میرے پاس سے
مجھ کو لگا کہ میں ہوا دار الاماں سے دور
جاؤ کہیں بھی موت تمہیں آئے گی ضرور
جانا ہے ایک روز سبھی کو یہاں سے دور

بھول بیٹھا وہ جواں ہو کے سبھی احسانات
جو کبھی اوڑھ کے سوتا تھا دوپٹہ ماں کا
ساری الجھن مری پل بھر میں سلجھ جاتی ہے
سامنے جب مرے آ جاتا ہے چہرہ ماں کا

آرزوؔ جانے بھی کیسے کوئی رتبہ ماں کا
روئے جنت سے حسیں لگتا ہے تلوا ماں کا
خود تو بھوکی ہے کھلاتی ہے مگر بچوں کو
میں تو قربان گیا دیکھ کے فاقہ ماں کا

جب رخصت ہوئی ماں تو پسر نے رو کے یہ کہا
ماں تجھ بن مجھے لخت جگر کہاں کہتے ہیں
یا رب مجھ پر ماں کا سایہ سلامت رکھ
ورنہ کہاں مجھے پیار سے کوئی میاں کہتا ہے

ٹکڑوں سے اپنے دل کے جدا ہو گئی ہے ماں
یوں لگ رہا ہے جیسے بہت رو گئی ہے ماں
صورت کو تیری دیکھنا ممکن نہیں رہا
یہ بیج کیا جدائی کا تو بو گئی ہے ماں
اہل ادب بے حس ہیں خدایا دہائی ہے
ان کے گناہ کا بوجھ مگر ڈھو گئی ہے ماں

وہ اک ہستی جس کو ہم ماں کہتے ہیں
بنا دل جس کو سارا جہاں کہتے ہیں
رونق بیت ہے وابستہ ماں کے دم سے
ورنہ تو بھرے گھر کو بھی ویراں کہتے ہیں

بچے یہ پوچھتے ہیں خلاؤں میں گھور کر
کل تک یہاں تھی آج کہاں کھو گئی ہے ماں
فرزانہ تیرے بچوں کو نگہتؔ بتائے گی
تھک کر مسافتوں سے سنو سو گئی ہے ماں

وقت رخصت مری ماں نے مرا ماتھا چوما
منزلوں نے تبھی بڑھ کر مرا تلوا چوما
دی مؤذن کو دوا نیند کی اور پھر کل شب
ہم نے جی بھر کے تمہیں خواب میں دیکھا چوما

امی خوابوں میں میرے کبھی آیا تو کریں
ہاتھ شفقت سے بالوں میں میرے پھرایا تو کریں
یوں تو موجود ھیں آپ ھم سب میں کہیں
صورت اصلی بھی مگر یاد سے اپنی دکھایا تو کریں
اس زمانہ نے بہت پریشان رکھا تنگ کیا آپ کو
اب تو آزاد ھیں ۔۔ ملنے کے لئے آیا تو کریں
اب بھی گرتا ھوں راہ میں چلتے چلتے
تب سہارے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو کریں
تھک گیا ہوں امی میں حالات سے لڑتے لڑتے
حوصلہ میرا بڑھانے کو بھی آیا تو کریں

تمہاری پرورش کی ہے آغوش محبت میں
گربقا ہے تمہاری تو میری ہی حفاظت میں
ماں کی مانند مجھ سے پیار تمہارافطری ہے
جاؤگے جہاں ہو ں موجودتمہاری ذات میں
ہے مجھ میں ہی پنہاں پہچان تمہاری
عظمت ہے تمہاری میری ہی خدمت میں
میری مٹی سے جو آتی ہے پیار کی مہک تم کو
یہ وہ راز ہے جو مزین ہے تاریخ کی عبارت میں

ذرا سی چوٹ لگے تو وہ آنسو بہا دیتی ہے
اپنی سکون بھری گود میں سلا دیتی ہے
کرتے ہیں خفا ہم جب تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہو تے ہیں خفا ہم جب، تو دنیا کو بھلا دیتی ہے
مت گستاخی کرنا لوگو! اس ماں سے کیونکہ
جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو کبھی لوٹ کے نہیں آتی

پوچھتا ہے جب کوئی کہ دُنیا میں محبت ہے کہاں
مسکرا دیتا ہوں میں، اور یاد آتی ہے ماں

ہر گھڑی میں خدا سے دعا یہ کروں
اب ہمیشہ رہے جاوداں میری ماں
سب خطائیں میری وہ چھپا لیتی ہے
مجھ سے ہوتی نہیں بدگماں میری ماں
جب بھی مشکل نے گھیرا مجھے دوستو
میں پکارتا گیا، میری ماں، میری ماں

اب تک مرے اعصاب پہ محنت ہے مسلط
اب تک مرے کانوں میں مشینوں کی صدا ہے
اے رات مجھے ماں کی طرح گود میں لے لے
دن بھر کی مشقت سے بدن ٹوٹ رہا ہے

ماں وہ چھت ہے بِنا جس کے گھر نہیں ہوتا
باپ دیوار ہے جو چھت کا پِلر ہوتا ہے
کوئی تو ہے کہ جو ہر روز یاد کرتا ہے
وہ جس کی محفلوں میں میرا ذکر ہوتا ہے
اس نئے سال یہ سوچا ہے کہ خوش رہنا ہے
جس طرح کوئی اکیلا بے فکر ہوتا ہے

میری ساری پریشانی دور ہوجاتی ہے
جب میں اپنی ماں کو مسکراتا دیکھتی ہوں

طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں
چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں

میں اس سے قیمتی شے کوئی کھو نہیں سکتا
جاناں ماں کی جگہ کوئی ہو نہیں سکتا

میں اپنی ماں کے وسیلے سے زندہ تر ٹھہروں
کہ وہ لہو مرے صبر و رضا میں روشن ہے

سرور جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو
کہ جیسے بھی ہوں بچے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں

بوڑھی ماں کا شاید لوٹ آیا بچپن
گڑیوں کا انبار لگا کر بیٹھ گئی

دروازے پر دستک ہو مگر باہر کوئی نہ ہو
کون سمجھے گا دیوانے کی دیوانگی کا دُکھ
وہ خوب رو یااب کہ نہ آیا ندی کنارے
کون سمجھے گا کشتی اور پانی کا دکھ
تم نے تو دیوار سے اک تصویر اُتاری ہے
کون سمجھے گا تصویر اور دیوار کا دکھ
جس گھر میں ماں نہیں ہوتی
کون سمجھے گا اُس آنگن اور اولاد کا دکھ

کہو کیا مہرباں نا مہرباں تقدیر ہوتی ہے
کہا ماں کی دعاؤں میں بڑی تاثیر ہوتی ہے

وہ لمحہ جب مرے بچے نے ماں پکارا مجھے
میں ایک شاخ سے کتنا گھنا درخت ہوئی

ہوا دکھوں کی جب آئی کبھی خزاں کی طرح
مجھے چھپا لیا مٹی نے میری ماں کی طرح

شام ڈھلے اک ویرانی سی ساتھ مرے گھر جاتی ہے
مجھ سے پوچھو اس کی حالت جس کی ماں مر جاتی ہے

شاید یوں ہی سمٹ سکیں گھر کی ضرورتیں
اےدوست ماں کے ہاتھ میں اپنی کمائی دے

TAGS: Poetryاردو شاعری

Leave a Comment

سوشل میڈیا پر رابطہ کریں

ہفتہ وار نیوز لیٹر

Subscription Form

تازہ تحریریں

Web Design & Development Services
Get the best hosting service now for your website