In this post, we are going to take a look at some really beautiful forgiveness poetry. At their finest, forgiveness poetry evokes our deepest selves. They challenge us to deviate from the safe tactics of our conservative mind.
اب یہ کہنا میرا تعلق ِعشق کہاں ہے! جانم
تلاش ِحق میں بندہ فصیل شہرسے نکل چکا ہے
ایسا نہیں حالات سے مجبور ہو گیا
کچھ مصلحت کی بات سے مجبور ہو گیا
جواب سب تھے میرے پاس دینے کو مگر
بس ظرف کے احساس سے مجبور ہو گیا
اپنی ناکامیوں پر سَردرگَریباں ہوں
فیصلوں کا شکوہ، بھروسے کا ذکر، کسے کروں
مردہ دل کو میرے جلا بخش دے
جینے کی پھر سے کوئی وجہ بخش دے
وہ جو تیری رضا کو کافی ہو۔۔۔
یا رب! مجھ کو ایسا سجدہ بخش دے۔
دل کا سفینہ ڈوبا جا رھے میرے ۔
تنکےسا ہی کوئی سہارہ بخش دے۔
تم صفحے اُلٹتے رہے میری ناکامیوں کے
کہانی سناتے رہے میری گستاخیوں کی
کب محنت و کامیابی کا ذکر گزر گیا دوست
شاید یہ ثمر تھے میری کوتاہیوں کے
اب نہ کریں گے جی، ان کو منانے کی ناکام کوشش
وہ انا پرست ہیں، تو انا پرست ہی سہی
آہ ! کب تک بھٹکوں دیار غیر میں؟؟
اپنے در کی غلامی کا پٹہ بخش دے۔
روٹھا ہوا یار میرا پھر سے منا دے۔
لطف و عنا اسکی اور وفا بخش دے۔
کہیں بھٹک نہ جاؤں اپنی راہ سے۔ ۔
منزل کی جانب کا رستہ بخش دے۔
عجب بےبسی وبےکلی رہی طاری
رب سے مانگ معافی اپنی ہر خطاکی
اسی کےاذن سےدورہو یہ وبا بھی
وہی خیر خواہ بھی وہی جلِ جلال بھی
بدکار ہوں سیاہ کار ہوں گنہگار ہوں مولا۔۔۔
پھر بھی تیری بخشش کا امید وار ہوں مولا۔۔۔
بہ روز محشر جب کوئی نہ ہو گا حامی۔ !!!
اس وقت تیری رحمت کا طلبگار ہوں مولا۔
ایسا وہ تیری یاد کا خنجر لگا مجھے
دل بھی مرے وجود سے باہر لگا مجھے
چمکا تمہاری یاد سے جب دل کا آئینہ
ہر راستہ ہی پیار کا منظر لگا مجھے
سب جانتا ہے۔۔۔ تُو سب سنتا ہے
اے میرے خدا۔۔۔ تجھے سب دِکھتا ہے
تُو حاضر ہے، تُو ناظر بھی
تو ہر اِک شے پر قادر بھی
پھرتُو ہی بتاکہ تیرے بندے
بانٹیں جب بھی رِزق یا چندے
کیوں تصویر بازی کرتے ہیں؟
یہ کس کو راضی کرتے ہیں؟؟؟
میرے مولا! میری لاج رکھنا
مجھے بس اپنا محتاج رکھنا
آسمان ویران ہے
تارے بھی حیران ہیں
معاف کردے میری چاندنی
دیکھ تیرا چاند کتنا پریشان ہے
بس اِک معافی ہماری توبہ، کبھی جو اب ہم ستائیں تُم کو
لو اب ہاتھ جوڑے ، کان پکڑے، اَب کیسے منائیں تُم کو
ٹوٹا جو دل تو سمیٹنےخدا کے در جا پہنچی
کر کے ناراض خدا کو اب کہاں جاؤں کس در سے اُمید لگاوں
بے وفائی وہ گناہ ہے جس کی معافی نہیں ہوتی
جان لیتی ہے عشق صرف وفا کافی نہیں ہوتی
کچھ خطاوں کی معافی دی جاتی ہے
لیکن ذہنی بربادی کا گناہ نہیں بخشا جاتا
اور پھر زندگیوں میں زہر گھول کر
طاق راتوں میں معافیاں مانگتے ہیں لوگ
گناہ گار تو شائد مانگ لیں گے معافی
حساب تو پارساؤں کا مشکل ہو گا
جب بھروسہ ٹوٹ جاتا ہے تب
معافی مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ہوتا
اِس قدر میرے پیار کا اِمتحان نہ لیجیے
خفا ہو کیوں مجھ سے یہ بتا تو دیجیے
معاف کر دو گر ہوگئی ہو ہم سے کوئی خطا
پر یاد نہ کرکے ہمیں سزا تو نہ دیجیے
ِکسی کا دِل توڑ کر معافی مانگنابہت آسان ہے
لیکن اپنا دِل ٹوٹنے پر کِسی کو معاف کر دینابہت مشکل ہے
معافی وہی دے سکتا ہےجو اندر سے مضبوط ہو
کھوکھلے اِنسان صرف بدلے کی آگ میں جلتے ہیں
ہماری التجا بھری معافی کو تو قبول تو کر لے
خدا کے لئے اب ہم کو تو معاف کر دے
بے خودی میں لے لیا بوسہ خطا کیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی میں نہ تھا
حقدار تو دنیا میں ہی سزا کے تھے
لیکن ہم نے خدا پر چھوڑ دیا اپنی بے بسی دیکھ کر
آج لفظوں نے بھی معافی مانگ لی
ہم پہ اپنے درد کا۔۔ بوجھ نہ ڈالو
توڑ کے دل معافی کاتقاضا کرتے ہیں
گنہگار کرتے ہیں جب یہ تقاضا کرتے ہیں
ہر وقت تم کو یاد کرتا ہوں
حد سے زیادہ تمہیں پیار کرتا ہوں
کیوں تُم مجھ سے خفا بیٹھے ہو
میں اک تم ہی پر تو مرتا ہوں
کب تک رہ پاؤ گےآخر یوں دُور ہم سے
ملنا پڑے گا کبھی نہ کبھی ضرور ہم سے
نظریں چُھرانے والے یہ بے رُخی ہے کیسی
کہہ دو اگر ہوا ہےکوئی قصور ہم سے
آؤ گے ملنے بعد میں امکان بھی نہیں
چہرے پہ آج آپ کے مسکان بھی نہیں
جب سے نگاہِ ناز نے بدلے ہیں سلسلے
کاجل یہ میری آنکھ میں حیران بھی نہیں
علم نہیں کیا لکھا ہےقسمت میں کیا ملے گا
صنم یہاں کچھ لوگوں کادعویٰ ہے خُدا ملے گا
مجھ کو رہنےدو ابن آدم بن
کہ میں فرزند شیطان نہیں ہوں
مانا کہ مجھ میں ہیں شر کئی
مگر میں مرید شیطان نہیں ہوں
کہتے ہیں کہ ہوگی غلطی
وقت غلطی کو سدھارے کیسے
گناہ تو نہیں کیا پھر بھی یہ تقاضا کرتے ہیں
توڑ کے دل معافی کا تقاضا کرتے ہیں
سنواس طرح نہیں کرتےبنا کسی خطا کے
ایسی سزا نہیں دیتے
کسی سے زندگی چھین نہیں لیتے
کہ کسی سے ایسے روٹھ نہیں جاتے
پھول تو سبھی چنتے ہیں دوست
بات تو تب ہے جب کوئی کسی کی راہ کے کانٹے چنے
رات کے پچھلے پہر میری یاد آئے
تیری آنکھوں سے نیند اگر اڑ جائے
تو معاف کردینا
میرا سایہ خوابوں میں تجھے ستائے
تو معاف کردینا
میرا پیار اگر، تجھے زہر لگے
تو معاف کردینا
تیرا دوست ہی تجھے غیر لگے
تو معاف کردینا
سمجھنے میں غلطی ہو گئی تم کو
اتنی بری بھی نا تھی قسمت اپنی
پھر بھی قسمت کے بدلنے کےلیےیہ تقاضا کرتے ہیں
توڑ کے دل معافی کا تقاضا کرتے ہیں
میں تمہیں معاف تو کرچکی ہوں مگر
پھر بھی اک بات کہنی ہے
کہیں مل جاؤ کسی رستے پہ
یونہی کسی سڑک پہ تو
کچھ بھی مت کہنا
کسی مجبوری کا ذکر مت کرنا
ہاں فقط اتنا کرنا کہ
میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر سوری کہہ دینا
تو لاکھ خفا ہو پر اِک بار تو دیکھ لے
کوئی بکھر گیا ہے تیرےروٹھ جانے سے
غلطی تو ہوگئی ہےاب کیا مار ڈالو گے
معاف بھی کردو اے صنم یہ غلط فہمی کب تک پالو گے
TAGS: Poetry•اردو شاعری
Leave a Comment