we have collected the latest father poetry in Urdu that will be used to express love for father. Father poetry gives us a chance to acknowledge a father’s efforts.
وہ آشنا مرے ہر کرب سے رہا ہر دم
جو کھل کے جی نہیں پایا مگر سسکتا تھا
جڑی تھی اس کی ہر اک ہاں فقط مری ماں سے
یہ بات سچ ہے مرا باپ کم نہ تھا ماں سے
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا
وہ لوٹتا تھا کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا
میری زندگی کا قصّہ تمام آپ ہو ابّو
میری زندگی کا دوسرا نام آپ ہو ابّو
آپ سے ہے زندگی میری
آپ سے جڑا ہرپل ہے
آپ ہی ہو راہ میری
میری منزل بھی آپ ہو ابّو
بیاں نہ ہوگا یہ افسانہ
میرے الفاظ ختم ہوجائینگے
میرے الفاظ، میرے جزبات
میری آواز بھی آپ ہو ابّو
آپ سے جڑی دھڑکن
آپ سے ہی بنتا خوابوں کا گھر ہے
سلطان ہوں میں، مگر میری زندگی کے سلطان آپ ہو ابّو
چار پیسے کماتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
پھل محنت کا پاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
تلخیاں سب زمانے کی، جھیل کر سختیاں دن بھر
جب واپس گھر کو آتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بچے دوڑ کر ٹانگوں سے اسکی جب لپٹتے ہیں
تھکاوٹ بھول جاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
بہت لاڈ و محبت سے، تھکن سے چور کاندھوں پر
جونہی بچے بٹھاتا ہے، باپ تب مسکراتا ہے
ہم ایسی کل کتابیں قابل ضبطی سمجھتے ہیں
کہ جن کو پڑھ کے لڑکے باپ کو خبطی سمجھتے ہیں
جو تیری نیندوں کو جاگتا تھا
جو تیری کھانسی کو کھانستا تھا
جو تیری بارش کو بھیگتا تھا
جو تیری سردی کو ہانپتا تھا
جو اپنے حصے کے سارے لقمے
تجھے کھلا کے ڈکارتا تھا
جو اپنے ہاتھوں کے سخت چھالے
چھپا کے تجھ کو دلارتا تھا
جو اپنے کپڑوں میں تیرے کپڑے کے
ناپ رکھ رکھ کے ناپتا تھا
جو تیرے زنداں کی قید تجھ کو
رہائی دے کر کے کاٹتا تھا
بلندی کے سنہرے خواب بچوں کو دکھاتا ہے
پڑھاتا ہے لکھاتا ہے سبق روشن سکھاتا ہے
بھلے مجبور ہو کر بھوک کو اپنی چھپاتا ہے
وہی تو پیٹ اپنا کاٹ کر سب کو کھلاتا ہے
اگر اولاد مہنگی چیز کی خواہش ذرا کردے
سو پھر کتنے ہی خرچے ہوں ادھاری پر اٹھاتا ہے
مجھے ہے یاد دو جوڑی فقط اس کے ہیں کُل کپڑے
وہ اپنا آپ کھوتا ہے تو گھر کیوں کر چلاتا ہے
ذرا سوچو زمانے کے ستم کو کیوں بھلاتا ہے
وہ اپنے اور پرائے جتنے ہیں رشتے نبھاتا ہے
دل کے سونے صحن میں گونجی آہٹ کس کے پاؤں کی
دھوپ بھرے سناٹے میں آواز سنی ہے چھاؤں کی
اک منظر میں سارے منظر پس منظر ہو جانے ہیں
اک دریا میں مل جانی ہیں لہریں سب دریاؤں کی
دشت نوردی اور ہجرت سے اپنا گہرا رشتہ ہے
اپنی مٹی میں شامل ہے مٹی کچھ صحراؤں کی
بارش کی بوندوں سے بن میں تن میں ایک بہار آئی
گھر گھر گائے گیت گگن نے گونجیں گلیاں گاؤں کی
صبح سویرے ننگے پاؤں گھاس پہ چلنا ایسا ہے
جیسے باپ کا پہلا بوسہ قربت جیسے ماؤں کی
دھڑکتے سانس لیتے رکتے چلتے میں نے دیکھا ہے
کوئی تو ہے جسے اپنے میں پلتے میں نے دیکھا ہے
تمہارے خون سے میری رگوں میں خواب روشن ہے
تمہاری عادتوں میں خود کو ڈھلتے میں نے دیکھا ہے
نہ جانے کون ہے جو خواب میں آواز دیتا ہے
خود اپنے آپ کو نیندوں میں چلتے میں نے دیکھا ہے
میری خاموشیوں میں تیرتی ہیں تیری آوازیں
ترے سینے میں اپنا دل مچلتے میں نے دیکھا ہے
جس کی سوندھی سوندھی خوشبو آنگن آنگن پلتی تھی
اس مٹی کا بوجھ اٹھاتے جسم کی مٹی گلتی تھی
جس کو تاپ کے گرم لحافوں میں بچے سو جاتے تھے
دل کے چولھے میں ہر دم وہ آگ برابر جلتی تھی
کسی کہانی میں ویرانی میں جب دل گھبراتا تھا
کسی عزیز دعا کی خوشبو ساتھ ہمارے چلتی تھی
صبح سویرے ننگے پاؤں گھاس پہ چلنا ایسا ہے
جیسے باپ کا پہلا بوسہ قربت جیسے ماؤں کی
دیر سے آنے پر وہ خفا تھا آخر مان گیا
آج میں اپنے باپ سے ملنے قبرستان گیا
ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب
پڑھی ہے باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے
بڑی عظیم ہستی ہو تم ، باپ ہو تم
ماں کے پاؤں تلے جنّت تو جنّت کا دروازہ ہو تم
ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں
مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود بھی وہ جلتا رہا
میں نے دیکھا اک فرشتہ باپ کی پرچھائیں میں
مدت کے بعد خواب میں آیا تھا میرا باپ
اور اس نے مجھ سے اتنا کہا خوش رہا کرو
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا
وہ لوٹتا تھا کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا
دس کو پال لیتا ہے باپ تنہا ہی
دس سے کیوں باپ پل نہیں سکتا
کس شفقت میں گندھے ہوئے مولا ماں باپ دیے
کیسی پیاری روحوں کو میری اولاد کیا
پرانا سوٹ پہنتا تھا کم وہ کھاتا تھا
مگر کھلونے مرے سب خرید لاتا تھا
وہ مجھ کو سوئے ہوئے دیکھتا تھا جی بھر کے
نہ جانے سوچ کے کیا کیا وہ مسکراتا تھا
پرانے گھر کو گرایا تو باپ رونے لگا
خوشی نے دل سا دکھایا تو باپ رونے لگا
جو امی نہ رہیں تو کیا ہوا کہ ہم سب ہیں
جواب بن نہیں پایا تو باپ رونے لگا
یہ رات کھانستے رہتے ہیں کوفت ہوتی ہے
بہو نے سب میں جتایا تو باپ رونے لگا
بٹھا کے رکشے میں کل شب روانہ کرتے ہوئے
دیا جو میں نے کرایہ تو باپ رونے لگا
میرا بھی ایک باپ تھا اچھا سا ایک باپ
وہ جس جگہ پہنچ کے مرا تھا وہیں ہوں میں
بیٹیاں باپ کی آنکھوں میں چھپے خواب کو پہچانتی ہیں
اور کوئی دوسرا اس خواب کو پڑھ لے تو برا مانتی ہیں
ہیں اگر حیات تو خدمت کرلو
خدمت کرکے جنت حاصل کرلو
دنیا میں پیار سب سے سچاہے انکا
دنیا کا سب سے انمول رشتہ ہے انکا
سب ہی رشتے مطلبی و عارضی
باپ کی محبت و مسکان کے آگے
حل ہوجاتی ہیں تمام مشکلیں
ماں کی دعا جب عرش پر جاتی ہے
بیٹی تو باپ ہےکی شہزادی و ملکہ
بیٹی تو ہے باپ کا غرور و بیٹا ۔
والدین اللّه کی نعمت ہیں
والدین اللّه کی رحمت ہیں
احساس کمی چھوڑ گئے وہ
انکو جانا تھا چلے گئے وہ
اپنے پیچھے کتنوں کو روتا چھوڑ گئے وہ
غم کے آنسوں دریا بنا گئے وہ
اپنوں کو اکیلا چھوڑ گئے وہ
بہت کچھ ادھورا چھوڑ گئے وہ
اپنا پیار محبت ساتھ لے گئے وہ
بہت سی یادیں چھوڑ گئے وہ
یہ تو صدیوں کا قصہ تھا
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
جلتی، تپتی، بھنتی اور سلگتی رت میں
اس کے نیچےیہیں کہیں پر
ایک جزیرہ سا آباد رہا کرتا تھا
خنک خنک سائے میں
ہنستے ،گاتے مسکاتے لوگوں کی
اک بستی تھی
یہاں تو ایک بڑا سا پیڑ ہوا کرتا تھا
وہ پیڑ جس کی چھاؤں میں کٹی تھی عمر گاؤں میں
میں چوم چوم تھک گیا مگر یہ دل بھرا نہیں
بوڑھا ہو گیا ہوں بیٹا،تھوڑا وقت دے دیا کر
بیٹھ کر دو چار ہی سہی ،باتیں تو کر لیا کر
جس طرح کی زندگی گزاری
میں خود گزار نہیں سکتا
قرض دار ہوں باپ کا اپنے
اور یہ قرض میں اُتار نہیں سکتا
تمہارے منظروں میں قید ہیں اب تک
میں جو بھی دیکھتا ہوں
سوچتا ہوںوہ وہی ہے
جو تمہاری نیک نامی اور بد نامی کی دنیا تھی
کہیں کچھ بھی نہیں بدلا
تمہارے ہاتھ میری انگلیوں میں سانس لیتے ہیں
میں لکھنے کے لیے
جب بھی قلم کاغذ اٹھاتا ہوں
تمہیں بیٹھا ہوا میں اپنی ہی کرسی میں پاتا ہوں
بدن میں میرے جتنا بھی لہو ہے
وہ تمہاری
لغزشوں ناکامیوں کے ساتھ بہتا ہے
مری آواز میں چھپ کر
تمہارا ذہن رہتا ہے
مری بیماریوں میں تم
مری لاچاریوں میں تم
تمہاری قبر پر جس نے تمہارا نام لکھا ہے
وہ جھوٹا ہے
تمہاری قبر میں میں دفن ہوں
تم مجھ میں زندہ ہو
کبھی فرصت ملے تو فاتحہ پڑھنے چلے آنا
چند سِکوں میں کہاں تم کو وفا ملتی ہے
باپ کے ہاتھ بھی چُوم لو تو دُعا ملتی ہے
تم محبت کی نظر سے اُنہیں دیکھو یارو
اُن کی مسکراہٹ میں جنت کی ادا ملتی ہے
آپ کا غصہ دیکھا تھا ابُو
کاش میں سمجھ جاتا
یہ میری نادانی تھی یا بھَول پن تھا
وہ غصہ نہیں، آپکا اپنا پن تھا
کرو دل سے خدمت، عبادت بن جائے گی
ماں باپ کی فرمانبرداری، امانت بن جائے گی
ہوگا جس دن تمہارے گُناہوں کا حِساب
ماں باپ کی خدمت، ضمانت بن جائے گی
خیال کا سفر ! سوچ رہی تھی کہ اب کہ بچھڑے تو شاید
شہر خموشاں کے مکین بن گئے ہیں میرے پیارے بابا
مجھ سے بچھڑئے اور افق میں گم ہوگئے ہیں میرے پیارے باب
ہے نیندوں میں بھی اب میرے خوابوں کا ادھورا سا سفر
لگتا ہے زمین خواب سے بھی رخصت ہوگئے ہیں میرے پیارے باب
میں آبلہ پا سی کاسہ گدائی لئے پھرتی ہوں در بدر
لوگو ! مجھے بھی بتاو کہاں سے ملتے ہیں” بابا”؟
میں ہر لاڈ اٹھاؤں گا اپنی پری کے
میں لوگوں کو بتاؤں گا بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں۔
یہ دُنیا پیسوں سے چلتی ہےاور کوئی میرے لئے صاحب
پیسہ کمائے جا ئے رہا تھااور وہ تھا صرف میرا باپ
ہر ایک درد وہ چپ چاپ خود پہ سہتا تھا
تمام عمر وہ اپنوں سے کٹ کے رہتا تھا
وہ لوٹتا تھا کہیں رات دیر کو دن بھر
وجود اس کا پسینے میں ڈھل کے بہتا تھا
اُن کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں
باپ زینہ ہے جو لے جاتا ہے اونچائی تک
ماں دُعا ہے جو سدا سایہ فگن رہتی ہے
باباگردوں میں ہیں ستارےآسماں بھی پکارے
تیری چاہ رہے سلامت
باباسر دشت لگے منگل صحرا نہ لگے پیاسا
سمندر بھی تجھ سے آدھا
باباتصور مات کھائےدل چیر جو دکھائے
ہستی لگے برادہ
باباتپتی آگ نم ہونہیں کوئ تجھ کو غم ہو
لخت جگر پکارے
باباکون ہیں سہارےتیرے نقش جو دکھائیں
محبتوں کو سنبھالے
TAGS: Poetry•اردو شاعری
Leave a Comment